ہماری پولیٹیکل پوزیشن کرونا وائرس ایمرجنسی-پی ایس آئی کا نکتہ نظر اور ترجیحات

پی ایس آئی ایسے شدید بحران کا سامنا کر رہی ہے جس کا اس کے ممبران نے کبھی سامنا نہیں کیا ہوگا

دنیا بھر میں ہیلتھ ورکرز کے متا ثر ہونے کی شرح تقریباً بارہ فیصد ہے، اور اموات کی شرح ناقابل برداشت ہے۔

صحت کے نظام کی تیاری نہ ہونا، بشمول اسٹاف کی کم تعداد،کام کرنے کا طویل دورانیہ،اور حفاظتی سازو سامان کی کمی جیسے اسباب ہیلتھ ورکرز کو مہلک خطرات میں مبتلا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے صحت کے نظام کی ایمرجنسی میں کام کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہورہی ہے۔

وینٹیلیٹرز، آئی سی یو بیڈز، ری اینیمیشن بیڈز، ٹیسٹنگ کٹس،لیبارٹریز اور بائیولوجسٹس کی عرصہ دراز سے کمی جان بچانے کے امکانات میں رکاوٹ ہے اور پہلے سے ہیلتھ اسٹاف کے لئے خطرناک کام کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔

مزید یہ کہ، صحت کے مراکز کی کئی سالوں سے جاری نجکاری نے سرکاری صحت کے شعبہ پر مزید دباؤ ڈال دیا ہے، حتی کہ کچھ حکومتوں نے نجی شعبوں کو سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے ساتھ کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

Rosa Pavanelli PSI General Secretary

پی ایس آئی ایسے شدید بحران کا سامنا کر رہی ہے جس کا اس کے ممبران نے کبھی سامنا نہیں کیا ہوگا

اس اسٹیج پر، ٹریڈ یونین تحریک کو اس ایمرجنسی کا فوری جواب دینے پر توجہ دینی چاہئے :

1۔ وہ ورکرز جن کو مرض کی منتقلی کے سب سے ذیادہ خطرات لاحق ہیں ان کو حفاظتی آلات کی فراہمی کے لئے تمام ذرائع استعمال کریں (ہیلتھ کیئر، بزرگوں کی دیکھ بھال، گھر میں دیکھ بھال، ٹرانسپورٹ، ایمبولینس، پولیس، فائر فائیٹر، جیل اور حراستی مراکز، بشمول پناہ گزین اور نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپ، دوکان کے اسسٹنٹ اور کیشیئر، ضروری اشیاء کی پیداوار میں کام کرنے والے ورکرز، دیگر)۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے یونین حکومت کو مقامی فیکٹریز کو وینٹیلیٹرز، ٹیسٹ کٹس اور ایسے تمام آلات اور سامان کی پیداوار پر منتقل کرنے کاکہے جو صحت کے شعبہ کی کارکردگی کو بہتر کرے۔

2۔آئی سی یو بیڈز کی تعداد بڑھائی جائے،جس کا مطلب ہے کہ ہمیں حکومت سے مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ آبادی کے لحاظ سے ضروریات کو پورا کر نے کے لئے نجی ہسپتالوں اور کلینکس کو اپنی تحویل میں لے۔

3۔موجودہ ہسپتال کے عملہ پر دباؤ کو ختم کرنے اور وباء کی منتقلی کے خدشہ کو کم کرنے کے لئے ہمیں ڈاکٹرز اور نرسز کی بھرتی، تربیت دینے اور ساز و سامان سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔

4۔ادویات کے پیٹنٹس کو معطل کردیں جو کہ کرونا وائرس کے علاج کے لئے ضروری ہے۔ ویکسین کی ریسرچ میں مشاورت کرنے اور کمرشل استحصال سے بچنے کے لئے عالمی سطح پر عالمی ادارہ صحت کے ماتحت کنسورشیم /ایجنسی بنائیں۔

5۔ تما م غیر ضروری پیداوار اور کمرشل سرگرمیوں پر بندش کا نفاذ کریں۔

6 ۔حکومت سے ورکرز اور ان کے خاندان کی آمدنی، تمام قسم کے غیر رسمی ورکرز کی مدد اور تنخواہ کی ادائیگی کے ساتھ باتنخواہ چھٹیوں پر عملدرآمد کی درخواست کریں۔اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق ان ورکرز کو مدد فراہم کریں جو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔پی ایس آئی میں ہم سمجھتے ہیں گلوبل ایمرجنسی کی صورت میں تمام ریاستوں کو خاندانوں کی مدد اور چھوٹے کاروبار کے لئے اپنے ریسورسز کو بروئے کار لانا چاہئے اور حکومتی ہدایات کے مطابق نجی شعبہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالے۔

7-حکومتی ترقیاتی اداروں اور آئی ایف آئی ایس کو ترقی پزیر ممالک میں ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے بغیر کسی شرائط کے کافی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنایاجائےبشمول صاف پانی اور صابن کی فراہمی ہاتھ دھونے کے لئے۔

8۔ عالمی برادری سے حراست میں موجود تارکین وطن، بارڈر پر پھنسے لوگوں اور مہاجریں، سیاسی پناہ لینے والے، کیمپوں میں رہنے والے تارکین وطن اور در بدر افراد کے لئے فوری،موثر اور انسانی حقوق کے تناظر میں حل کرنے کا مطالبہ کریں۔انسانی حقوق اور انسانی صورتحال کے بجائے جس کے لئے ہم بطور ٹریڈ یونین فکر مند ہوتے ہیں، یہاں خدشہ موجود ہے کہ ہزاروں افراد جو ممنوعہ علاقوں میں ہیلتھ کیئر سرورز، صاف پانی اور سینیٹیشن کی سہولیات کی رسائی کے بغیر حراست میں ہیں وہ پبلک ہیلتھ کے لئے نا قابل تصور پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔

صحت کے بحران کے سبب معاشی بحران کے ابھرتے ہوئے مسئلہ سے نبرد آزما ہونے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کی کمی اور پچھلے تیس سالوں سے عالمی مالیاتی نظام میں تبدیلیوں کے سبب صورتحال بدترین ہو چکی ہے۔یہ معاشی بحران کام کرنے والوں کے لئے مزید مشکلات پیدا کرے گا اورترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی پر مجبور کردے گا۔ ہمیں معاشی بحران پر قابوپانے کے لئے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم سنگین غربت سے بچنا، سماجی طور پر دوسری جگہ پر منتقلی اور دائیں بازو کی سیاسی انتہا پسندی جو کہ عالمی معاشی بحران کو فروغ دے گی سے بچنا چاہتے ہیں تو، یہ وہ موقع ہوگا کہ ہمیں اس وقت یہ کہنا پڑے گا کہ یہ عالمی ایمرجنسی ہے جس میں امداد کی فراہمی اور موثر اور بنیادی اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے۔ورکرز پہلے ہی قربانیاں دے رہے ہیں اور چھوٹے کاروبار بھی متاثر ہورہے ہیں۔یہ وقت ہے کہ جنہوں نے اس نظام سے منافع کمایا ہے اورجو گندگی انہوں نے پھیلائی ہے اس کو صحیح کرنے میں شراکت کریں۔ ان میں مندرجہ ذیل مسائل شامل ہیں:

1۔ خطرے سے دوچار معیشتوں کے لئے قرضوں میں ریلیف اور قرضوں کی تنظیم نو متعارف کرنا تاکہ وہ بیک وقت کرنسی اور قرضوں کو واپس کرنے کے بحران کا سامنا کرنے پر مجبور نہ ہوں جیسا کہ وہ پہلے ہی صحت اور معاشی بحران سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

2۔عالمی قرضوں کی ادائیگی کے بیل آوٗٹ نظام میں تبدیلی تاکہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کو طریقہ کار کے مطا بق جب ضروری ہو ممکن بنایا جاسکے، جس میں قرض دینے والے اور قرض لینے والے دونوں پر بوجھ برابر پڑے اور جوکہ معاشی نمو کو کمزور نہ کرے اور سماجی بحران کو مزید خراب نہ کرے۔

3۔ قرض اور اخراجات پر قانونی پابندیوں کو ہٹائیں جیسے کہ یورپ اور برازیل کے کیس میں ہوا ہے۔

4۔مطالبہ کیا جائے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ریجنل ڈیولپمنٹ بینک اور پرائیوٹ قرض فراہم کرنے والے قرض دینے کے لئے آذادمعاشی نظام کی شرائط مثلاًلیبر مارکیٹ لبرلائزیشن، نجکاری،یا امیروں کے لئے ٹیکس کی چھوٹ جیسی شرائط نہ لگائیں۔

5۔ ویلتھ ٹیکسزکے نفاذ کو یقینی بنائیں تاکہ جنہوں نے اس بحران کو پروان چڑھانے کے لئے دولت جمع کی تھی اب اس بحران کے خاتمے کے لئے مدد کریں۔

6۔وہ افراد جوذیادہ منافع کماتے ہیں مثلاً پانچ فیصد سے ذائد ان کے لئے کارپوریٹ ٹیکس پچاس فیصد تک بڑھائیں۔وہ وقت جب کمپنیاں گراوٹ کا شکار ہیں، پبلک سروسز فنڈ کی کمی کا شکار ہیں، اور ورکرز قربانیاں دے رہے ہیں، وہ کمپنیاں جو ذیادہ منافع کما رہی ہیں ان پر اخلاقی اور معاشی طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈالیں۔دیگر ٹیکسز اور لیویز کے برعکس ذیادہ منافعوں پر ٹیکس کاروبار کو مزید کمزور نہیں کرے گا کیونکہ ٹیکس اس منافع پر عائد ہورہا ہے جو وہ پہلے ہی حاصل کر چکے ہیں اور جو اضافی سطح پر ہے۔جدوجہد کرنے والی کمپنیاں اضا فی ٹیکس ادائیگی کے بجائے لئے گئے اضافی ٹیکس سے ان کے کاروبار کی مالی مدد کی جائے۔

7۔ ۔ڈیجیٹل ٹیکس فوری متعارف کروایا جائے تاکہ وہ ٹیکنالو جی کی کمپنیاں جو بھاری منافع کما رہی ہیں اور ماضی میں ٹیکس دینے سے بچ رہی تھیں اور انہوں نے ٹیکس بچا کر پیسہ جمع کر رکھا ہے (او ر جو ابھی لوگوں کے گھر میں رہنے کے سبب ذیادہ منا فع کما رہی ہیں مثلاً، نیٹ فلکس، ایمازون وغیرہ) وہ بھی اپنا شیئر فوری ادا کریں۔کئی ممالک ایسے ٹیکسز کو متعارف کروا نا چاہتے ہیں لیکن وہ او ای سی ڈی کے بی ای پی ایس پراسس کے تنائج کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ بی ای پی ایس کا پراسس اب معتبر تجویز دینے اوریقینی طور پر مخصوص وقت کے اندر ہنگامی مالیاتی مدد کے قابل نہیں ہے، تمام ممالک اس ٹیکس کو فوری طور پر آمدنی بڑھانے کے لئے متعارف کروائیں۔

8۔ ان کمپنیوں کو مالی بیل آوٹ نہ دیاجائے جو ملک بہ ملک (سی بی سی آر) کی رپورٹ فراہم نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کو جو ٹیکس ادائیگی سے بچتی ہیں۔ جی ایف سی کے جواب میں اور امریکہ میں حالیہ ٹیکس چھوٹ میں دیکھا گیا ہے کہ ان اقدامات کے بغیر کئی کمپنیاں یہ منافع اپنے شیئر ہولڈرز ، ڈائریکٹرز اور انتظامیہ تک منتقل کر دیتی ہیں اور اس منافع کو روزگار کی حفاظت اور ملازمین کے حالات میں بہتری کے لئے استعمال نہیں کرتیں۔

طویل مدت میں عالمی مالیاتی نظام بشمول پیداواری نظام اور گلوبل سپلائی چین کے کردار کا دوبارہ گہرائی سے جائز لینے کی ضرورت ہے جواس بحران میں ناکام ہوگیا ہے۔ہمیں انڈسٹریل پالیسیز میں حکومت کے کردار بشمول ان چیزوں کی ڈومیسٹک پیداوار جو عوام کے مفاد اور بہتری کے لئے ضروری ہیں ان پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔پبلک سروسز کے کردار پر نظر ثانی اور پبلک ہیلتھ سسٹم میں سرمایہ کاری، سرکاری سظح پر تعلیم، صاف پانی، سینیٹیشن اور سماجی تحفظ اہم ہے، یہ اس دلیل کا دفاع بھی کرے گا جو کہ حالیہ مالیاتی گورننس کا نظام اور ایم این سیز کی بڑھتی ہوئی طاقت کا خاتمہ ضروری ہے ۔

ان وجوہات کی بناء پر ہمیں اپنے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں وہ ہیلتھ ورکرز نہیں چاہیئیں جو جان بچائیں تو ہیرو کہلائیں۔ وہ ہیروز نہیں ہیں! وہ پروفیشنل ہیں جو عزت، وقار، معقول اجرت اور کام کے محفوظ حالات کے مستحق ہیں۔

ہم تمام منافع خوروں پرواضع کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں مستقبل میں حادثات سے بچنا ہے اور اگر ہم تمام افراد کے لئے بہتر دنیا کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس تمام طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ نہ سمجھیں کہ یہ صرف ایک غلطی ہے، یہ غیر ذمہ داری ہے۔ ہم 2008میں پہلے ہی موقع کھو چکے ہیں۔ اب ہم یہ موقع نہیں کھو سکتے۔

جیسا کہ پوپ فرانسس نے کہا، ہم سمجھتے تھے کہ ہم بیمار دنیا میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی بحران اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بیمار سیارے پر نہ محفوظ ہیں اور نہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں ہماری مدد کرنے کے لئے حکومت پر پالیسیاں بنانے کے لئے دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ملازمتوں پر کم توجہ اور کارپوریٹ نظام کا بحران انسانیت کے خاتمے اورنظام کی ناکا می کو یقینی بنائے گا۔

اب کو ئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پالیسی سازی میں فوری تبدیلی ناممکن ہے یا مارکیٹ مستقبل کے بحران سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔لیکن لوگ انتباہ کو نظر انداز اور اپنے کاموں پر دوبارہ لوٹ سکتے ہیں۔ ہمارا کام ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایسا نہ ہو۔ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہے کہ یہ بحران ابھی ختم نہیں ہوا اورہمیں اس کی انتباہ کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں لوگوں کو آمادہ کرنا ہے کہ سخت نئی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں جس میں عوام اور خطہ منافع سے بالاتر ہو۔